۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
شانزدهمین نشست شورای اداری حوزه علمیه خواهران استان یزد در سال 1400،

حوزہ/ مرحوم ملا احمد نراقی نے کہا: جب میں سفر کرنا چاہتا ہوں تو سب کچھ خدا پر چھوڑ دیتا ہوں اور دنیا سے منہ موڑ لیتا ہوں لیکن آپ کو کشکول سے دلچسپی ہے اور آپ اس سے منہ موڑ نہیں سکتے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یزد/ حجۃ الاسلام و المسلمین محمد کارگر شورکی نے صوبے کی انتظامی کونسل کے اجلاس میں کتاب ارشاد القلوب سے پیغمبر اکرم (ص) کی ایک روایت کا حوالہ دیا اور کہا۔ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: «دنیا کی محبت تمام برائیوں کی اصل، اور تمام برائیوں کی کنجی، اور تمام خیر کی بربادی کا سبب ہے۔

انہوں نے مزید کہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس روایت میں تین جملے کی طرف اشارہ فرمایا ہے: دنیا سے محبت اور لگاؤ ​​تمام گناہوں کی ابتدا ہے کیونکہ دنیا کی محبت انسان کو اس دنیا کے حصول کے لیے اقدامات کرنے پر مجبور کرتی ہے جس میں گناہ ہے اور گناہ کی جا میں داخل ہونا ہے اور ان تمام گناہوں کی کنجی یہ دنیا کی محبت اور اس سے پیار ہے۔

صوبہ یزد کے مدرسہ خواہران کے پرنسپل نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جو کوئی بھی دنیا سے وابستہ ہے اس کے تمام نیک اعمال جو اس نے کئے ہیں وہ فساد کی کھائی میں گرنے کا سبب بنیں گے اور اس کے تمام نیک اعمال کو برباد کر دیں گے، مزید کہا: محبت دنیا اور دنیا کا استعمال دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جو بات ہماری آیات اور روایات میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو دنیا سے اتنا لگاؤ ​​نہیں رکھنا چاہیے کہ اس سے الگ نہ ہو سکے بلکہ انسان کو چاہیے کہ اس دنیا کو اس جنت الٰہی تک پہنچنے کے لیے استعمال کرے جو خدا کا وعدہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا: انسان کو دنیا سے دلچسپی پیدا ہونے سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ اسے اس کے مرکزی مقام سے دور کردے گی جو کہ جنت ہے۔ اس لیے دنیا کا ہونا اس وقت تک اچھا ہے جب تک وہ اس کا محتاج نہ بنے اور انسان آسانی سے دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اسے چھوڑ سکے۔

حجۃ الاسلام و المسلمین کارگر شورکی نے مزید مرحوم ملا احمد نراقی (متوفی 1244ھ) کے قصے کا حوالہ دیا جو اسلام کے عظیم علماء میں سے ہیں اور کہا: مرحوم ملا احمد نراقی کے پاس بہت زیادہ دولت تھی ایک دن وہ حمام گئے اتفاق سے ایک درویش بھی غسل خانے میں موجود تھا، حمام سے باہر نکلتے ہی درویش نے کہا: آیت اللہ آپ کہتے ہیں کہ دنیا کی محبت اچھی نہیں ہے، جب کہ آپ کے پاس بہت زیادہ دولت ہے۔ میں حیران ہوں کہ آپ اتنی ساری دولت کے ساتھ کیسے مرنا چاہيں گے ؟ مرحوم نراقی نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وہ دونوں کپڑے پہن کر غسل خانے کے دروازے سے باہر نکل آئے، پھر آپنے درویش سے کہا: درویش صاحب: کیا آپ کربلا گئے ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرمایا: چلو اسی طرح پیدل کربلا چلیں، درویش مان گیا۔

 یہ دونوں لوگ نراق سے کربلا کی طرف روانہ ہوئے، کچھ دور پیدل چلے کہ ایک بار درویشوں نے دست تاسف ملتے ہوئے کہا: تھوڑی دیر ٹھہرئے میں نے اپنا کشکول حمام میں چھوڑ دیا ہے اسے لے آؤں۔ مرحوم نراقی نے کہا: اے درویش بات یہیں ہے۔ آپ کے بقول میرے پاس بہت دولت ہے لیکن جب میں سفر کرنا چاہتا ہوں تو سب کچھ خدا پر چھوڑ دیتا ہوں اور دنیا سے منہ موڑ لیتا ہوں لیکن آپ کو کشکول سے دلچسپی ہے اور آپ اس سے منہ موڑ نہیں سکتے یعنی آپ کی دلچسپی اس قدر ہے کہ آپ کے لیے اس سے دور ہونا مشکل ہے، اس لیے آپ میں اور مجھ میں یہی فرق ہے۔

مدرسے کے مدیر نے کہا: یہ کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا کی محبت اور ہے اور دنیا کا استعمال کر کے انسانی کمال اور جنت حاصل کرنا اور ہے، لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ خدا ہمیں انسانی کمالات اور آسمانی درجات کے حصول کے لیے دنیا کو استعمال کرنے میں کامیابی عطا فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .